Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

ہم جیسے تنہا لوگوں کا‘ رونا کیا‘ مسکانا کیا

جب چاہنے والا کوئی نہیں‘ پھر جینا کیا’ مرنا کیا

سو رنگ میں جس کو سوچا تھا‘ سو روپ میں جس کو چاہا تھا

وہ جان غزل تو روٹھ گئی‘ اب اس کا حال سنانا کیا

دادی جان کی بات پر طغرل کے چہرے پر سرخی چھا گئی تھی۔

”پری یہی تو بتا رہی تھی اس موئے کی اس حرکت سے وہ بہت پریشان ہو رہی تھی  میں نے سمجھایا ہے اگر اس نے چند دنوں میں تصویریں واپس نہ کیں تو اس کے باپ کے سامنے اس کے جوتے لگا کر تصویریں لے کر آؤں گی  لو بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی ہے۔
“ وہ اس کے دل کی کیفیت سے بے خبر کہہ رہی تھیں اور طغرل کو گویا محسوس ہو رہا تھا اس کے اندر باہر آگ ہی آگ ہے  بہت عجیب تھی اس کی آگ کی تپش۔

”کب ملاقات ہوئی ہے آپ کی اس سے؟“

”میں کہاں ملی ہوں اس سے  پھر وہ یہاں رہتا ہی کب سے ہے تعلیم کے سلسلے میں باہر گیا ہوا تھا اس ہفتے ہی واپس لوٹا ہے  اسی خوشی میں عابدی نے گھر میں پارٹی تھی۔
(جاری ہے)

“ وہ پورے انہماک سے ان کی گفتگو سن رہا تھا۔

”ارے تو کیوں کھڑا ہے؟ یہاں بیٹھ آکر۔“

”ابھی کچھ دیر بعد آتا ہوں  ایک کام یاد آ گیا ہے۔“ وہ کہہ کر سیدھا وہاں سے کچن میں چلا آیا  جہاں پری چائے بنا رہی تھی وہ سیدھا اس کے قریب پہنچا۔

”اس نے تمہاری تصویریں کیوں لی ہیں؟“ وہ اس سے کچھ فاصلے پر کھڑا ہو کر پوچھ ہا تھا  سنجیدہ لہجے میں۔

”مجھے نہیں پتا؟“ اس نے مگ ریک سے نکال کر کاؤنٹر پر رکھتے ہوئے سادگی بھرے انداز میں کہا

”یہ کیسے ہو سکتا ہے  اس نے تمہاری تصویریں لی ہیں اور کیوں لی ہیں یہ تم کو معلوم نہیں ہے؟“ آہستہ آہستہ اس کے لہجے میں اشتعال ابھرنے لگا تھا۔

”میں نے جو سچ تھا وہ آپ کو بتا دیا ہے۔“

”کیا سچ تھا؟ کیا بتا دیا تم نے؟“

”یہی کہ مجھے نہیں معلوم اس نے میری تصویریں کیوں لی ہیں؟ آپ کو یقین آتا ہے یا نہیں  یہ مجھے نہیں معلوم؟“ اس نے برنر آف کرتے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا تھا۔
طغرل کی نظریں گرے اینڈ ریڈ کلر کے دوپٹے کے ہالے میں لپٹے چہرے پر تھیں  بلا کی سادگی و سنجیدگی تھی اس کے دلکش چہرے پر۔

ایک بار اٹھنے والی نظر بے ساختہ اور بار بار اٹھ رہی تھی اور ایسا پہلی بار ہوا تھا وہ اپنے بدلتے احساسات پر متحیر تھا۔

”میرے راستے سے ہٹئے پلیز۔“ وہ چائے کا بھاپ اڑاتا ہوا مگ چھوٹی ٹرے میں رکھ کر اٹھائے ہوئے گویا ہوئی تو وہ گہرا سانس لیتا ہوا گویا ہوا۔

”اٹس او کے  اس نے یہ حرکت تمہاری اجازت کے بنا کی ہے  میں اس کو بتاتا ہوں  اس کی اس حرکت کا اینڈ کیا ہوتا ہے؟ میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔“

”اوہ! کیا اس کو ماریں گے؟“ اس کے لہجے کی وحشت پر وہ کانپ اٹھی تھی۔

”آف کورس! وہ اس طرح کیسے کسی کی عزت کی دھجیاں بکھیر سکتا ہے؟ کم از کم میں کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دوں گا کوئی میرے خاندان کی طرف میلی نگاہ سے بھی دیکھے تو میں اس نگاہ کو خاک کرنے کی ہمت رکھتا ہوں۔
“ وہ از حد جذباتی ہو رہا تھا اس وقت اس کی آنکھیں لہو رنگ تھیں۔

”آپ کو اتنا جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے طغرل بھائی! میں دادی جان کو بتا چکی ہوں  وہ آسانی سے اس معاملے کو ہینڈل کر سکتی ہیں۔“ وہ نرمی سے گویا ہوئی تھی۔

”میں اس کو اس حرکت پر ایسا سبق دینا چاہتا ہوں کہ وہ کبھی خواب میں بھی ایسی حرکت کا سوچ نہ سکے۔“

”پلیز! آپ میرا تماشا بنانے کی سعی نہ کیجئے۔
“ وہ اس کا جارحانہ انداز کئی بار دیکھ چکی تھی اور جانتی تھی عزت و غیرت کیلئے وہ کسی سے بھی کمپرومائز کرنے والا نہیں ہے۔

”تماشا…؟“ اس نے ایک دہکتی نگاہ اس پر ڈالتے ہوئے کہا پھر دھپ دھپ کرتا ہوا وہاں سے نکل گیا۔

###

گہری نیند سے وہ ہڑ بڑا کر بیدار ہوا اور سیدھا اٹھ کر بیٹھ گیا اس کا سانس اتنی تیزی سے چل رہا تھا گویا وہ میلوں دور سے دوڑتا ہوا آیا ہو  آنکھوں میں عجیب سی وحشت تھی چند لمحے اس کو سانس کی بے ہنگم رفتار کو قابو کرنے میں لگے تھے مگر چہرے اور آنکھوں میں چھائی وحشت بے چینی کسی طور پر کم نہ ہوئی تھی وہ اٹھا تھا کھڑکی کے پٹ وا کرکے کتنی دیر تک گہرے گہرے سانس لیتا رہا۔

لیکن دل کی وحشت تھی کہ کسی طور کم ہونے کا نام نہ لے رہی تھی  بے قراری نے زیادہ ہی بے چین کیا تو وہ کسی گھائل پروانے کی مانند باہر ٹیرس پر آ گیا۔

سخت سردی تھی اس کے دل جیسی ویرانی ہر سو چھا رہی تھی  آنگن کے وسط میں لگا نیم کا درخت گم صم و خاموش کھڑا تھا۔ آسمان دھواں دھواں تھا  دسمبر کی آخری راتیں تھیں چاند  ستارے سب نظروں سے اوجھل تھے  اس کی نظریں بے ساختہ سامنے ماہ رخ کے کمرے کی طرف اٹھ گئیں  جہاں کھڑکیوں کے شیشوں سے جھانکتی نائٹ بلب کی دھیمی روشنی اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ گہری نیند میں محو استراحت ہے۔

”بہت خوب رخ! میری نیندیں چرا کر مزے سے سو رہی ہو؟“ گلفام نے مسکراتے ہوئے زیر لب کہا۔ ماہ رخ کے کمرے پر نظر ڈالتے ہی اس کے بے تاب دل کو قرار آنے لگا  باقی کی رات اس نے سوتے جاگتے اور اس کے کمرے کو تکتے ہوئے گزاری تھی پھر یہ پورے ہفتے اس کا معمول بن گیا تھا۔

”سیاہ فام! مجھے لگتا ہے تم پاگل ہو گئے ہو  سچ مچ پاگل۔“ ایک دن موقع پا کر جب اس نے یہ سب رخ کو بتایا تو وہ اس کی طرف دیکھ کر کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی۔

”خدا کی قسم! مجھے بھی ایسا لگتا ہے میں پاگل ہو گیا ہوں۔“

”میں تو پھر کسی پاگل سے شادی کرنے والی نہیں ہوں  جاؤ جا کر اپنے لئے کسی پاگل لڑکی کو دیکھو۔“ اس کی بات مکمل بھی نہ ہوئی تھی اور وہ بے حد گھبرائے ہوئے انداز میں اس سے ہاتھ جوڑ کر گویا ہوا تھا۔

”خدا کیلئے  ایسی بات کبھی خواب میں بھی مت کہنا  تمہارے بغیر تو زندگی موت جیسی ہو گی۔
“ وہ بے ساختہ رو پڑا تھا  ماہ رخ کی مسکراہٹ تحیر میں بدل گئی  ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ اس نے گلفام کو روتے دیکھا ہو۔ اس کے لبوں پر ہمیشہ دھیمی سی مسکراہٹ ہوتی تھی جس میں موجود پیار و خلوص کی روشنی اس کے چہرے کو منور کر دیتی تھی۔ آج اس کی آنکھوں سے بہہ نکلنے والے آنسو ماہ رخ کو ششدر کر گئے تھے۔

”سیاہ فام! کیا ہو گیا ہے تم کو؟ تم مرد ہو کر رو رہے ہو؟“ گلفام کے بہتے آنسوؤں نے اس کو سہما دیا تھا۔

”مرد کیا انسان نہیں ہوتا؟ غم تو پتھروں کو بھی موم بنا دیتا ہے اور مرد کو بھی رلا دیتا ہے۔“

”غم؟ کس غم کی بات کر رہے ہو تم۔“

”تم سے جدائی کا غم  تمہیں پانے سے پہلے کھونے کا غم۔ میں روز خواب میں تمہیں گم ہوتے دیکھتا ہوں  میری راتیں خوابوں میں تمہیں تلاش کرتے ہوئے گزرتی ہیں  روز ایک نئے جزیرے میں  میں تمہیں تلاشنے میں سرگرداں رہتا ہوں اور تم…؟“ وہ ایک بار پھر شدتوں سے رو پڑا تھا۔

”ارے امی وغیرہ آ گئیں تو کیا سوچیں گی وہ؟ پلیز خاموش ہو جاؤ  نامعلوم کیا ہوا ہے تمہیں  خوابوں پر بھی کوئی اعتبار کیا جاتا ہے جو تم یقین کرکے بیٹھ گئے ہو۔“

”وہ خواب نہیں ہے رخ! وہ خواب نہیں ہے اس میں کہیں نہ کہیں حقیقت پوشیدہ ہے  یہ میرے دل کا گمان ہے۔“ اوپر کوئی آ رہا تھا جس کے قدموں کی آواز سن کر گلفام اٹھ کر تیزی سے چلا گیا اور وہ گم صم بیٹھی رہ گئی  وہ سوچ رہی تھی۔

یہ کیسی محبت تھی؟ یہ کیسا احساس تھا؟ یہ کیسی تڑپ تھی؟

کیا گلفام مجھ سے اتنی محبت کرتا ہے؟ اتنی شدید محبت جس نے اسے آنے والے کل سے آگہی بخش دی ہے۔

تمام تر بے خبری کے باوجود وہ جان گیا ہے میں اسے چھوڑ کر چلی جاؤں گی  کسی ایسے ملک جہاں اس کی پرچھائیں بھی مجھے دیکھ نہ سکے گی  کیا ہوا ہے؟ کیا محبت اسی کو کہتے ہیں؟ کیا سچی محبت انسان کو روشن ضمیر بنا دیتی ہے؟ کیا اسی احساس کا نام محبت ہے؟

دل میں ایک عجیب سی سوزش جاگی تھی اور وہ بے کل سی ہو کر کمرے میں آئی  وارڈ روب کے لاکر سے ساحر کی دی گئی ڈائمنڈ رنگ نکال کر دیکھنے لگی۔

   1
0 Comments